ذکر میلاد،اہمیت وافادیت

ذکر میلاد،اہمیت وافادیت

قرآن کریم اصول وضوابط والی مقدس کتابہے ،ہرچھوٹے بڑے مسئلہ کا حل اصول وضوابط کی شکل میں قرآن کریم میں موجود ہے،ائمہ کرام وعلماء اعلام اس قانونی کتاب سے دستور کے مطابق تمام مسائل کا حل نکالتے ہیں،ہر مسئلہ کا الگ الگ تذکرہ نہیں کیا گیا بلکہ قانونی بات فرمادی گئی ،اس کی روشنی میں متعلقہ مسائل کا حل نکلتا ہے،مثلا :شوہر کی ذمہ داریوں میں بیوی کے ڈیلیوری (Delivery)کے مرحلہ میں دواخانہ لیجانا وغیرہ کا جزئیہ قرآن کریم میں کھلے لفظوں میں نہیں ملتا ؛لیکن اس کے لئے ایک قانون دے دیا گیا:وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔(سورۃ النساء:19)

ترجمہ:تم بیویوں کے ساتھ دستور کے مطابق حسن سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہو۔(سورۃ النساء،آیت:19)

اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات مقدسہ وسیرت طیبہ کا ذکر فرمایا اور حکم دیا کہ تم حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر جمیل کرتے رہو۔

اس عمومی حکم سے قاعدہ وقانون مل گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بابرکت ذکر میلاد،فضائل وتعلیمات سیرت خواہ کسی ماہ و کسی دن ہو ،اہتمام سے کرتے رہیں،خصوصی ایام میں تو بطور خاص اہتمام ذکر ہونا چاہئیے ۔

چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات طیبہ، اخلاق عالیہ، فرامین مقدسہ اختیار کرنے ہی سے عروج وارتقاء حاصل ہوتا ہے ،سورۂ مائدہ کی آیت نمبر15 میں اللہ تعالی نے اہل کتاب کو مخاطب کرکے فرمایا :

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ ۔

(سورة المائدة،آیت:15)

اے اہل کتاب ! ہمارے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں جلوہ گر ہوچکے ہيں ،(یہ آپ کی میلاد کا بیان ہے)،اس کے بعد آپ کی سیرت واخلاق کا اس طرح ذکر فرمایا:

یہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں جو کچھ تم کتاب کی آیتوں کو چھپاتے ہو،اور بہت سی باتوں سے درگزر فرماتے ہیں۔

میلادپاک کے بیان کو سیرت کے بیان پر مقدم کیا اور اختتام بھی میلاد کے بیان پر کیا،چنانچہ مذکورہ آیت کریمہ کے ختم پر فرمایا: قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ ۔

تحقیق کہ اللہ تعالی کی جانب سے تمہارے پاس ایک عظیم نور اور روشن کتاب آچکی۔(سورة المائدة،آیت:15)

     قرآن کریم کے اسلوب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ سیرت طیبہ کو جاننے اور اس پر عمل پیرا رہنے کے لئے بیان میلاد اہمیت رکھتا ہے اور اس نعمت پر بارگاہ حق تعالی میں شکرادا کرنے کے لئے بھی ذکر میلاد کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

تعلیمات قرآنی کے یہی جلوے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مبارک زندگیوں میں عیاں وآشار رہے،جملہ کتب حدیث وسیر ميں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت طیبہ اور آپ کی شان وعظمت کا ذکر ملتا ہے ۔

اگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی محفلوں اور نشستوں میں اس ذکرپاک کا اہتمام نہ کرتے تو آپ کی شان وعظمت والی روایات کس طرح کتب احادیث میں آتیں؟

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت شریف اور آپ کی شان وعظمت کا ذکر ،صحابہ کثرت سے کیا کرتے ، کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس میں آپ کا ذکر نہ کیا گیا ہو،دن ورات ، صبح ومساء ، سفر وحضر ، خلوت وجلوت ،تنہائی وانجمن، ہر بزم و محفل میں آپ کا ذکر کیا کرتے تو یوم میلاد شریف کیا،وہ -معاذ اللہ- ذکر میلاد شریف نہيں کئے ہونگے ؟

یقینا انہوں نے اپنے معمول میں فرق نہیں لایا!

چنانچہ امت مسلمہ کی غفلت اور احکام دین سے دوری کے باعث نبضشناس علماءکرام نے امت کی خیر خواہی کے لئے قرآن کریم وحدیث شریف کی روشنی میں اس کو ایک مستحسن عمل قرار دیا ہےکہ بطور خاص ماہ میلاد ویوم میلاد آپ کے ذکر کا اہتمام کریں اور آپ کی تعلیمات مقدسہ سے روشناس ہوں تاکہ اس کی برکت سے بقیہ گیارہ ماہ بھی سیرت طیبہ پر عمل کے لئے مستعد ہوجائیں اوراصلاح نفس کا نیا عزم وحوصلہ پیدا ہوجائے ۔

از:حضرت ضیاء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ و بانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر۔

Comments

comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Enter Captcha *